واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت امام زین العابدین

رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ جمادی الاول یا ۱۵ جمادی الثانی ۳۸ ہجری   کو   ہوئی ۔آپ کا اسم گرامی علی بن الحسین  تھالیکن آپ امام زین العابدین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے نام سے مشہور ہیں، امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے وہ فرزند تھے جو واقعۂ کربلا میں زندہ بچ گئے تھے اور انہیں قیدیوں کے قافلے اور شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق لے جا کر یزید کے دربار لے جایا گیا تھا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی والدہ کا نام شہر بانو تھا جو ایران کے بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھیں جو نوشیروان عادل کا پوتا تھا۔ آپ کے مشہور القاب میں زین العابدین اور سیدِ سجاد شامل ہیں۔اس وقت ان کے دادا حضرت علی کرم وجہہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ آپؒ کا نام آپ کے دادا کے نام پر علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن اور ابوالقاسم رکھی گئی۔ ولادت کے چند دن بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد آپ کی خالہ گیہان بانو جو محمد بن ابی بکرؒ کی زوجہ تھیں اور انہوں نے محمد بن ابی بکرؒ کے انتقال کے بعد شادی نہیں کی تھی، نے آپ کی پرورش کی۔ دو سال کی عمر میں آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب عليہ سلام کو شہید کر دیا گیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔ نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھا۔علامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے آپ کا نام سید الساجدین اور سجاد پڑ گیا تھا۔

 علامہ ابن حجر مکیؒ نے لکھا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کے سامنے آپ کی برائی کی مگر آپ خاموش رہے تو اس شخص نے کہا کہ اے علی ابن الحسین ؒمیں آپ سے مخاطب ہوں تو آپ نے فرمایا کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جاہلوں کی بات کی پروا نہ کرو اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں۔ ایک شامی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے سامنے گالیاں دیں تو آپ نے فرمایا کہ اے شخص تو مسافر معلوم ہوتا ہے اگر کوئی حاجت ہے تو بتا۔ اس پر وہ شخص سخت شرمندہ ہو کر چلا گیا۔

آپ کی شادی ۵۷ ہجری میں آپ کے چچا حضرت حسن بن علی بن ابو طالب کی بیٹی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ کے گیارہ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے حضرت امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اور حضرت زید شہید مشہور ہیں۔

کربلا کا حادثہ ۱۰محرم ۶۱ ہجری بمطابق اکتوبر ۶۸۹ عیسوی کو پیش آیا۔ ۲۸ رجب ۶۰ ہجری کو آپ اپنے والد حضرت حسین ابن علی کے ہمراہ مدینہ سے مکہ آئے اور پھر چار ماہ بعد ۲محرم ۶۱ ہجری کو کربلا آئے۔ کربلا آنے کے بعد آپ انتہائی بیمار ہو گئے یہاں تک کہ ۱۰ محرم کو غشی کی حالت طاری تھی اس لیے اس قابل نہ تھے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت پر فائز ہوتے۔۱۰ محرم کی شام کو تمام خیموں کو آگ لگا دی گئی اور آپ کو آپ کی پھوپھی حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نے سنبھالا۔ ۱۱ محرم کو آپ کو اونٹ کے ساتھ باندھ کر اور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گیے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ ۱۶ ربیع الاول ۶۱ ہجری کو دمشق پہنچا اور دربارِ یزید میں رسیوں اور زنجیروں میں بندھا ہوا پیش کیا گیا۔ ایک سال کی قید کے بعد آپ ۸ ریبع الاول ۶۲ ہجری کو مدینہ واپس آئے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت پر گریہ کناں رہے۔ ان کی بہن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے تمام بال سفید ہو گئے تھے اور خود ان کی حالت اچھی نہ تھی۔ آپ سے جب پوچھا جاتا کہ آپ کو سب سے زیادہ مصیبت کا سامنا کہاں کرنا پڑا تو آپ فرماتے 'الشام الشام الشام' (دمشق کو الشام کہا جاتا تھا)۔ آپ کو اس بات کس شدید دکھ تھا کہ آپ کی بہن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو ننگے سر یزید جیسے فاسق کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا اہلِ مدینہ نے اس کے بعد یزید کی بیعت توڑ دی اور اس کے خلاف بغاوت کر دی۔

آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ 'اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پر ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔

واقعۂ کربلا کے بعد دوسرا بڑا سانحہ مدینہ پر شامی افواج کی چڑھائی تھی جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ ۶۳ ہجری میں پیش آیا اور واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ مدینہ والوں نے یزید کے خلاف بغاوت کر کے اس کے گورنر کو معطل کر دیا۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو جو اپنی سفاکی کے لیے مشہور تھا اہلِ مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ اس کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔تمام لوگوں سے یزید کی زبردستی بیعت لی گئی اور جس نے انکار کیا اس کا سر قلم کیا گیا۔ صرف دو آدمیوں سے بیعت طلب کرنے کی جرات نہ کی گئی جو حضرت علی ابن الحسین اور حضرت عبداللہ ابن عباس تھے۔

اس واقعہ کے وقت مروان بن حکم جو اہلِ بیت کا مشہور دشمن تھا اس کو خطرہ محسوس ہوا لیکن اس کو اور اس کے اہل خانہ کو کسی نے پناہ نہ دی مگر وہ ایک کوشش کے لیے حضرت علی ابن الحسین کے پاس آیا اور پناہ طلب کی تو آپ نے یہ خیال کیے بغیر کہ اس نے واقعہ کربلا کے سلسلے میں کھلی دشمنی دکھائی تھی اسے اور اس کے اہل خانہ کو پناہ دی اور اس کو بچوں کو اپنے بچوں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ کے ہمراہ 'منبع' کے مقام پر بھیج دیا اور مکمل حفاظت کی۔ مسلم بن عقبہ جو اس فوج کا سالار تھا جس نے مدینہ کو تباہ و برباد کیا، اس نے خاندانِ رسالت بشمول حضرت علی ابن الحسین کی خوب کھل کر برائیاں کیں مگر جب حضرت علی ابن الحسین کا سامنا ہوا تو ادب سے کھڑا ہو گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے قصداً ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے رعب و جلال کی وجہ سے مجبوراً ایسا کیا۔

مروان ابن الحکم کے مرنے کے بعد ۶۵ ہجری  میں عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا۔ اس نے حجاج بن یوسف کو حجاز کا گورنر بنا دیا کیونکہ حجاج نے عبداللہ بن زبیرؓ کو قتل کر کے حجاز پر قبضہ کیا تھا۔ حجاج نے کعبہ پر سنگ باری کی تھی اور اسے تباہ کر دیا تھا حتی کہ اس کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو حکم دیا تھا کہ حضرت علی ابن الحسینؓ کو گرفتار کر کے شام پہنچا دیا جائے چنانچہ اس نے انہیں زنجیروں سے باندھ کر مدینہ سے باہر ایک خیمہ میں رکھوایا۔

علامہ ابن حجر مکی کے مطابق عبدالملک بن مروان کو کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ حضرت علی ابن الحسینؓ خلافت سے کوئی غرض نہیں رکھتے اس لیے انہیں نہ چھیڑا جائے۔ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو پیغام دیا کہ بنی ہاشم کو ستانے اور ان کا خون بہانے سے پرہیز و اجتناب کرو کیونکہ بنی امیہ کے اکثر بادشاہ انہیں ستا کر جلد تباہ ہو گئے۔ اس کے بعد انہیں حجاج نے چھوڑ دیا اور عبدالملک بن مروان کی زندگی میں زیادہ تنگ نہ کیا گیا۔ جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔

اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں۔ چنانچہ ولید بن عبد الملک  نے ۹۵ ہجری میں آپ کو زہر دے دیا اور آپ ۲۵ محرم الحرام ۹۵ ہجری بمطابق ۷۱۴ عیسوی کو درجۂ شہادت پر فائز ہو گئے۔آپ کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی